یوکرین میں مذاہب عمومًا تین حدود میں منقسم ہیں: رومن کیتھولک فرقہ، مشرقی مذہبیت اور اسلام۔ یہاں کیتھولک لتھووینیا اور پولینڈ، کِیفی اور ماسکوئی قدامت پسندی اور تاتار اور عثمانی تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں جن کے ساتھ ساتھ سوویت ورثہ بھی موجود ہے جس سے کہ الحاد کو فروغ ملا ہے، یہ سب یوکرینی شہریوں کے موجودہ دور کے عقائد اور سابقہ دور عقائد کی نشو و نما طے کیے ہیں۔
ماقبل تاریخ دور اور ابتدائی قرون وسطٰی میں موجودہ یوکرین کے علاقہ جات مختلف قبائلی مذہبی مراسم کی حمایت کرتے تھے (مثلاً قدیم اعظم ترین بلغاریہ کی تینگریت یوکرین کا ساتویں صدی عیسوی میں یہاں کا حصہ بننا)۔ مسیحیت کو بازنطینی سلطنت کی حمایت ملی اور ایک ہزارعیسوی کے قریب اسے اہمیت حاصل ہوئی (بعد کے دور کے مصنفین[کون؟] نے کوشش کی کہ کیوان مسیحیت کو اسی درجے کی اولیت ملے جیسے کہ بازنطینی مسیحیت کو حاصل تھی اس تصور میں کہ حواری آندروس خود اس جگہ آئے جہاں بعد میں کیف کے شہر کی تعمیر ہوئی۔
دسویں صدی میں ابھر رہی ریاست کیفی روس تیزی سے بازنطینی سلطنت کے تہذیبی اثر میں آئی۔ یہاں مشرقی مذہبیت کی پہلی تبدیلی مذہب کرنے والی شہزادی سینٹ اولگا قسطنطنیہ 945ء یا 957ء آئی تھی۔ 980ء کے دہے میں روایات کے مطابق اولگا کا پوتا شہزادہ کنیاز ولادیمیر نے اپنے لوگوں کو دریائے دنیپر میں بپتسمہ دیا۔ اس سے مشرقی مذہبیت کے روتھینیا میں تسلط کی ایک لمبی تاریخ شروع ہوئی، ایک مذہبی منہاج جس نے یوکرین اور روس دونوں کو متاثر کیا۔ روس خورد (لِٹِل رشیا) کا ماسکو کے تسلط میں ہونا بالآخر یوکرینی یونانی کیتھولک چرچ کے زار کے زیر قبضہ یوکرین میں انحطاط کا سبب بنا۔
یہودیت یوکرین میں تقریبًا دو ہزار سال سے قائم ہے: یہودی تاجر یونانی آبادیوں میں آئے۔ 7 ویں صدی کے بعد یہودیت پڑوش کے خزر تسلط پر اثر ڈالا۔ 13 ویں صدی سے اشکنازی یہودی موجودگی یوکرین میں قابل لحاظ حد تک بڑھ گئی۔ 18 ویں صدی میں یوکرینی زمین سے یہودیت کی ایک نئی تعلیم شروع ہوئی - حاسيديم
طلائی گھڑسوار (جو 1313ء میں مشرف بہ اسلام ہوئے) اور سنی دولت عثمانیہ (جو یوکرینی لیتورال پر 1470ء کے دہے میں اپنا قبضہ جمائے) اپنے ساتھ اسلام اپنی رعایا کے علاقوں میں لائے جو موجودہ یوکرین کا حصہ ہیں۔ کریمیائی تاتار اسلام قبول کر چکے تھے جو طلائی گھڑسواروں کا مملکتی مذہب تھا (1313ء-1502ء)۔ یہی مذہب دولت عثمانیہ کے باج گزاروں کا بھی 18 ویں صدی کے اواخر تک رہا۔
سوویت یونین کے دور (1917ء-1991ء) میں برسرحکومت سوویت ارباب مجاز سرکاری طور پر الحاد کا فروغ دیتے تھے اور اسکولوں میں اسی کی تعلیم دیتے تھے۔ جبکہ مختلف سطح پر مذہبی افراد پر ان کے اداروں پر مظالم عام تھے۔ اس دور میں عوام کا ایک بہت ہی محدود طبقہ چرچ جایا کرتا تھا اور بے عقیدہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔
آزادانہ رازومکوو سنٹر کے تالیف کردہ تخمینوں کے مطابق 2003ء کی ملک گیر مردم شماری سے پتہ چلا کہ 75.2 فیصد جواب دہندے خدا پر یقین رکھتے ہیں اور 22 خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ 37.4 فیصد چرچ کو پابندی سے جایا کرتے تھے۔
پیو ریسرچ سنٹر کے ایک مطالعے کے مطابق، یوکرینی آبادی کا 83.8% حصہ مسیحیت اپنائے ہوئے ہے۔ اعداد میں یہ 38 ملین ہوتے ہیں۔ ان میں 76.7% یوکرینی آبادی مشرقی مسیحی ہیں یا 34.8 ملین ہیں۔
جنوری 1، 2006ء تک 30,507 اندراج شدہ مذہبی ادارے تھے، اس میں 29,262 مذہبی برادریاں شامل ہیں؛ حکومت کا تخمینہ تھا کہ تقریبًا 1,679 غیر اندراج شدہ مذہبی برادریاں ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد مذہبی طور پر فعال شہری مسیحی تھے، جن کی اکثریت آرتھوڈاکس تھی۔ مذہبی مراسم مغربی حصے میں زیادہ ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حصہ سوویت یونین سے کم تر وقت (1939ء–41ء; 1944ء–91ء) جڑا رہا۔
یوکرینی سماج کے مختلف عقائد کا اندازہ قومی سطح کے سروے سے کیا گیا ہے۔ یہ نتیجہ سرکاری طور پر اندراج شدہ مذہبی گروہوں کی تعداد سے مختلف ہے۔ پس، روسی آرتھوڈاکس چرچ کو جسے ] کہا جاتا ہے، روایتی طور پر (روسی سلطنت کے دور سے ) عوامی اثرورسوخ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ عقیدہ رکھنے والوں کا فیصد جو کیف کی آرتھوڈاکس چرچ سے خود کو منسلک کرتے ہیں۔ 2006ء کا رازومکوو سنٹر کا سروے بتاتا ہے:
یوکرین میں بہائیت کا آغاز استبدادی پالیسی کے دور سے شروع ہوا۔ اس سے قبل، یوکرین روسی سلطنت کے سلطنت کے حصے کے طور پر بہائی مذہب سے بالواسطہ ربط میں تھے۔موجودہ طور پر تقریبًا ایک ہزار بہائی یوکرین میں موجود ہیں۔ جو تیرہ برادریوں میں منقسم ہیں۔